اکرم کنجاہی ۔۔۔۔ پروین فنا سید

پروین فنا سید

پروین فنا سید ایک ایسی شاعرہ تھیں جنہوں نے جدت کے نام پر شعری بدعتیں قبول نہیں تھیں۔ لہٰذا اُن کی شاعری اعتدال، انسان دوستی، حسن و جمال اور اعتماد کی شاعری ہے۔اُن کا پہلامجموعۂ کلام ’’حرفِ وفا‘‘ اُن کی بیس برس کی شعری ریاضت کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ کتاب کافلیپ تحریر کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی نے لکھا:
’’پروین فنا سیّد کی شاعری عفتِ فکر اور پاکیزگیِ احساس کی شاعری ہے۔غزل کی سی صنفِ شعر میں بھی جس میں اکثر شاعروں نے علامت اور استعارے کے توسط سے کھل کھیلنے کی آزادی کا مظاہرہ کیا ہے، فنا کی یہی انفرادیت نہایت سلیقے اور خوب صورتی سے اظہار پاتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ کسی بھی مرحلے پراُن کے شعر نے غزل کی لطافت اور نزاکت کو مجروح نہیں کیا بل کہ غزل کی معینہ سمتوں میں ایک سمت کا اضافہ کیا ہے۔یہ اُس خود داری، انا اور غیرت مندی کی سمت ہے جسے سپردگی کی لذت نے اُردو غزل میںبہت کم نمایاں ہونے دیا ہے۔‘‘
قاسمی صاحب کے اِس خیال کی تائید فنا کے مندرجہ ذیل الفاظ کرتے ہیں:
’’جہاں تک شعر کہنے کا تعلق ہے،میرے نزدیک جذبہ اور احساس خود اپنی حقیقت کو لکھنے والے کی روح کی عمیق ترین گہرائیوں سے منوا کر ہی عالمِ شعور میں آتے ہیں۔اصنافِ سخن کا بھی یہی عالم ہے۔شعر کا محرک خیال اپنا روپ خود ہی متعین کرتا ہے یعنی شاعر خود کسی خیال کو زبردستی آزاد نظم، غزل یا رباعی کے چار مصرعوں میں نہیں سمو سکتا۔ شعر گوئی کے سلسلے میںفن کے اِن متعینہ اور مصدقہ اصولوں میں خواہ مخواہ دخل اندازی کی بجائے، میں نے اطمینان سے اِن ضوابط کے آگے انتہائی احترام سے سر جھکایا ہے۔‘‘
انہیںفیض احمد فیض سے تلمذ کا شرف حاصل تھا۔اپنے مجموعۂ کلام ’’تمنّا کا دوسرا قدم میں‘‘ میں انہوں نے فیض کو منظوم خراجِ احساس بھی پیش کیا ہے۔مزید براں انہوں نے خود اپنے مجموعۂ کلام میں لکھا ہے کہ احمد ندیم قاسمی صاحب نے انہیں خود تنقیدی کے عمل سے آشنا کیا۔فنا نے غزل کے علاوہ نثری و آزاد نظمیں لکھی ہیں۔ فنی طور پر اُن کے پختہ کار ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ اُردو زبان کی اُن چند شاعرات میں سے ہیں جنہوں نے رباعیات بھی بڑی سہولت سے کہی ہیں:
رباعی
چلنی تھا مرا جسم، تو گھائل تھی وفا
اِس حال میں بھی ذوقِ طلب کم نہ ہوا
دیکھا تو اُسی ہاتھ میں تھی کُند چھری
جس کے لیے نیزے پہ دھری اپنی انا
آپ 3؍ ستمبر 1936ء کو لاہور کے ایک سادات گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ طالب علمی کے دوران ہی آپ نے شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔آپ شاعری کے علاوہ موسیقی اور مصوری میں بھی دلچسپی رکھتی تھیں۔ طویل علالت کے بعد 27 ؍اکتوبر 2010 ء کو کراچی میں وفات پائی۔آپ کی طبع شدہ کتب میں حرفِ وفا،تمنّا کا دوسرا قدم اور یقین شامل ہیں۔ایک غزل ملاحظہ کیجیے:
تمہارا ذوق ہی کامل نہیں ہے
وگرنہ کوئی شے مشکل نہیں ہے
شرار غم کا جو حامل نہیں ہے
وہ دل سب کچھ تو ہے پر دل نہیں ہے
جہان رنگ و بو پر مٹنے والو
یہ دنیا موج ہے ساحل نہیں ہے
بڑھے جن کے قدم راہ جنوں میں
پھر ان کی کوئی بھی منزل نہیں ہے
نشاط انگیز نغمے کیا سنائیں
طبیعت اس طرف مائل نہیں ہے
٭…٭…٭

Related posts

Leave a Comment